• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بنگلہ دیش: ہمسایہ جو بدگمان ہوگیا

Updated: August 28, 2024, 1:39 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

در اصل بنگلہ دیش کے باشندوں کو یہ دیرینہ شکایت رہی ہے کہ پچھلے ۱۵؍برسوں سے ہندوستان نے شیخ حسینہ کی آمرانہ اور جابرانہ حکومت کی آنکھ بند کرکے حمایت کی۔ دس سال قبل نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد تو جیسے حسینہ کی لاٹری لگ گئی ہو۔ مودی حکومت نے حسینہ کے تئیں ’’ سات خون معاف‘‘ والا رویہ اپنالیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ۱۹۷۱ء میں  بنگلہ دیش کی آزادی میں  ہندوستان نے جو اہم کردار نبھایا تھا اُس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کے بعد ہندوستانیوں  کو بنگلہ دیشی عوام نجات دہندہ سمجھنے لگے تھے۔ ۵؍اگست کوجب بنگلہ دیش نے ’’دوسری آزادی‘‘حاصل کی تو صورتحال بالکل بدلی ہوئی ہے۔ پچھلے ہفتے جب بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی اضلاع میں  باڑھ آگئی تو عبوری حکومت کے ایک وزیر نے اس قدرتی آفت کی ذمہ داری ہندوستان کے سرپر ڈال دی۔وزیر اطلاعات و نشریات ناہید اسلام نے یہ بے بنیاد الزام لگا دیا کہ بنگلہ دیش کے سرحدی اضلاع میں  تریپورہ میں  ڈیم کے دروازے کھول دینے کی وجہ سے باڑھ آئی ہے۔ ڈھاکہ میں  متعدد یونیورسٹیوں  کے طلبہ نے’’ ہندوستان کی اس جارحیت‘‘ کے خلاف احتجاجی جلوس بھی نکالے۔پیر کو ڈھاکہ میں  انڈیا ویزا سینٹر میں  ہندوستان مخالف نعرے لگائے گئے ۔
 ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بدگمانیاں  اور شک و شبہات یکطرفہ نہیں  ہیں ۔ اگر ڈھاکہ میں  ہندمخالف جذبات سر اٹھا رہے ہیں  تو ہندوستان میں  بھی بنگلہ دیش کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا میں  پچھلے ایک ماہ سے منظم مہم جاری ہے۔ بنگلہ دیش میں  اس وقت بھارت کے لئے ناپسندیدگی کے جذبات میں  بے پناہ اضافہ کیوں  نظر آرہا ہے؟ در اصل بنگلہ دیش کے باشندوں  کو یہ دیرینہ شکایت رہی ہے کہ پچھلے پندرہ برسوں  سے ہندوستان نے شیخ حسینہ کی آمرانہ اور جابرانہ حکومت کی آنکھ بند کرکے حمایت کی۔ دس سال قبل نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد تو جیسے حسینہ کی لاٹری لگ گئی ہو۔ مودی حکومت نے حسینہ کے تئیں  ’’ سات خون معاف‘‘ والا رویہ اپنالیا۔ ان کے طویل دور حکومت کے دوران بنگلہ دیشی عوام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کے لئے وہ ہندوستان کو بھی کسی حد تک ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں  ہر جعلی الیکشن کے بعد ہندوستان سب سے پہلے حسینہ کی اقتدار میں  واپسی کا خیر مقدم کرتا۔ جیسے جیسے مودی حکومت کی نوازشیں  حسینہ کے لئے بڑھتی گئیں  ویسے ویسے بنگلہ دیش کے عوام کی ہندوستان سے بدظنی اور برہمی میں  بھی اضافہ ہوتا گیا۔ حسینہ پر اتنامہربان ہونے کی مودی حکومت کی وجہ اس کی یہ غلط فہمی تھی کہ صرف عوامی لیگ کے اقتدار میں  رہنے سے ہی ہندوستان کے مفادات محفوظ رہیں  گے۔ دراصل حسینہ نے نئی دہلی کو یہ فرضی بیانیہ گھول کے پلادیا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم نہیں  رہیں  تو اسلامی انتہا پسند وں  کا ملک پر غلبہ ہوجائے گا جو بھارت کی سلامتی کیلئے شدید خطرے کی بات ہوگی۔ ۲۰۱۴ء سے حسینہ کی تاناشاہی بڑھنے لگی۔ وہ جمہوریت کو کچلنے اور اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین اور صحافیوں  کو نشانہ بنانے لگیں ۔ بنگلہ دیش کے عوام کو توقع تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت حسینہ کے غیر جمہوری اقدام پر انہیں  ٹوکے گی لیکن مودی سرکار مسلسل ان کی سرپرستی کرتی رہی۔ ۵؍اگست کو جب بازی پلٹ گئی اور طلبہ نے حسینہ کو اقتدار سے ہٹنے اور جلاوطنی کا انتخاب کرنے پر مجبور کردیا تو نئی دہلی پر حیرتوں  کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

یہ بھی پڑھئے:ٹرمپ کے آنے سے امریکی پالیسی بدل جائے گی؟

   حسینہ کی ڈرامائی معزولی کا ساری دنیا نے خیر مقدم کیا لیکن ہمارے ملک میں  سوگواری سی چھا گئی۔ حسینہ جان بچاکر بھاگیں  بھی تو بھارت پہنچیں ۔ حسینہ کے فرار ہونے کے بعد چند دنوں  تک پھیلی لاقانونیت کے دوران انتقامی کاروائی میں  قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا جس میں  سیکڑوں  مسلمانوں  کے ساتھ چند ہندو بھی مارے گئے اور ان کی املاک کو تباہ کیا گیا لیکن جلد ہی حالات پر قابو پالیا گیا۔ مسلمانوں  نے مندروں  اور ہندو پڑوسیوں  کی حفاظت کی۔ محمدیونس نے ڈھاکہ کے قدیم ڈھاکیشوری مندر کا دورہ کرکے ملک کے ہندوؤں  کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔لیکن بھارت میں  گودی میڈیا اور سوشل میڈیانے ایسا بیانیہ تیار کیا گویا بنگلہ دیش میں  ہندوؤں  کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ لگاتار کئی دنوں  تک فیک نیوزاور گمراہ کن ویڈیوز کے ذریعہ بنگلہ دیش کو بدنام کیا جاتارہا۔ اب تو بنگلہ دیش مخالف بیانیہ سیاسی اور انتخابی فائدے کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ مجوزہ ضمنی الیکشن سے قبل یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک عوامی تقریب میں  دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش میں  ہندوؤں  پرمنظم طریقے سے حملے ہورہے ہیں  اور مندر توڑے جارہے ہیں  جبکہ ڈھاکہ کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ محمد یونس نے جنم اشٹمی کے دن ہندو لیڈروں  سے ملاقات کرکے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش کے ہندو اور مسلم ایک ہی کنبہ کے افراد ہیں  اور دونوں  کو مساوی حقوق اور آزادی حاصل ہے۔
 شیخ حسینہ کا تختہ پلٹا جانا در اصل ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور انٹلی جنس دونوں  کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ گزشتہ کئی برسوں  سے بنگلہ دیش میں  حسینہ کی جابرانہ حکمرانی کے خلاف عوام میں  غصہ بڑھ رہا تھا۔ جنوری میں  فراڈ الیکشن کے ذریعہ ایک بار پھر اقتدار ہتھیانے کے بعد حسینہ بے حد غیر مقبول ہوگئی تھیں ۔ ہزاروں  کلومیٹر دور واشنگٹن اور لندن کو بنگلہ دیش میں  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، شہریوں  کے بنیادی حقوق کی پامالی اور جمہوری اقدار کے زوال کا ادراک ہوگیاتھا لیکن پڑوس میں  بیٹھے بھارتی حکمرانوں  کو حسینہ کے عیب نظر نہیں  آرہے تھے۔ اچھی خارجہ پالیسی کا تقاضہ ہے کہ تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں  نہ رکھے جائیں  لیکن مودی حکومت اس صائب راہ کو چھوڑ کر صرف حسینہ کے ساتھ رشتے مستحکم کرتی چلی گئی۔ اس نے بنگلہ دیش کے حزب اختلاف کو کبھی منہ نہیں  لگایا اور نہ ہی بنگلہ دیش کے عوام کے جذبات، خیالات اور عزائم کو کوئی اہمیت دی۔ تین ہفتے قبل بنگلہ دیش میں  حسینہ کے خلاف عوام کے سینوں  میں  پلتی نفرت اور برہمی بغاوت بن کر پھٹ پڑی لیکن بھارت کی بین الاقوامی سراغ رساں  ایجنسی را کو اس سیاسی زلزلے کی بھنک تک نہ مل سکی۔بنگلہ دیش کے زمینی حقائق سے نئی دہلی کس قدر بے خبر تھی اس کا اندازہ اسی بات سے ہوجاتا ہے کہ خالصتاً طلبہ کی غیر سیاسی تحریک کو جس نے حسینہ جیسی طاقتور لیڈر کو راج سنگھاسن سے اتار پھینکا ، ہم لوگ کبھی پاکستان کی تو امریکہ کی اور کبھی چین کی سازش سمجھتے رہے۔
  حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش میں  بھاری اتھل پتھل کے بعد ایک عبوری حکومت ملک کی گاڑی کو پٹری پر لانے کی کوششوں  میں  مصروف ہے۔ مودی سرکار کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اپنا احتساب کرے اور بنگلہ دیش کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لے اور اسمیں  ضروری تبدیلیاں  اور سدھار کرے۔ بڑے اور طاقتور پڑوسی سے چھوٹے اور کمزور پڑوسی کو عموماً تھوڑی شکایت بھی رہتی ہے اور تھوڑی ناراضگی بھی پڑوسی خواہ کوئی انسان ہو یا کوئی ملک۔چھوٹے پڑوسی کی کٹھن گھڑی میں  ہمیں  اس کی مدد بھی کرنی چاہئے اور اس کی شکایتوں  کا ازالہ بھی۔ اٹل بہاری واجپئی کا یہ قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے:’’ ہم دوست بدل سکتے ہیں  پڑوسی نہیں ۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK